KidsOut World Stories

تین مینڈھے    
Previous page
Next page

تین مینڈھے

A free resource from

Begin reading

This story is available in:

 

 

 

 

تین مینڈھے

 

 

*

 

 

 

 

ایک وقت کی بات ہے سبز وادی کے ایک میدان میں تین مینڈھے رہتے تھے، چھوٹا مینڈھا ، درمیانی مینڈھا اور بڑا مینڈھا۔ انہیں وہاں کی میٹھی گھاس کھانا بہت پسند تھا، لیکن بدقسمتی سے ان کا میدان سوکھ کر بنجر ہوگیا تھا کیونکہ یہ مینڈھے بہت پیٹو تھے اور انہوں نے گھاس کی آخری پتی تک کو کھا لیا تھا۔ لیکن وہ اب بھی بھوکے تھے۔ کچھ دوری پر انہیں ایک میدان نظر آرہا تھا جو کہ ہری بھری میٹھی مزیدار گھاس سے بھری ہوئی تھی، لیکن افسوس کہ وہاں جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا – جو ندی کے اوپر ایک جھولتا ہوا پل تھا۔ لیکن پل کے نیچے ایک انتہائی خوفناک دیو رہتا تھا جس کا نام ٹریور تھا – وہ بھی ہمیشہ بھوکا رہتا تھا۔ اور اسے کھانے کے لیے رس بھرے مزیدار مینڈھے بہت پسند تھے۔ سب سے پہلے چھوٹا مینڈھا پل پر پہنچا۔ اس نے پل پر ڈرتے ڈرتے اپنا ایک کھر رکھا پھر دوسرا کیونکہ وہ بہت زیادہ ہلتا تھا، اس نے بڑی محنت کی اور لکڑی کے تختوں پر وہ سنبھل سنبھل کر اپنے کھروں کو رکھتا ہوا ٹرپ ٹریپ، ٹرپ ٹریپ کرتا ہوا جارہا تھا۔

اچانک اسے تیز دہاڑ سنائی دی۔ 'میرے پل پر ٹرپ ٹریپ کرکے کون چل رہا ہے؟' اور پھر پل کے نیچے سے دیو نکلا۔

اپنے تھرتھراتے ہوئے کھروں کے ساتھ، چھوٹا مینڈھا منمناتے ہوئے بولا 'یہ میں ہوں۔ میں کھانے کے لیے گھاس کی تلاش میں جارہا ہوں۔'

'اوہ نہیں تم نہیں جاؤ گے! میں تمہیں اپنے ناشتے، لنچ اور چائے میں کھانے جارہا ہوں!'

'اوہ نہیں!'، خوفزدہ چھوٹے مینڈھے نے کہا۔ 'میں تو ایک بہت چھوٹا سا مینڈھا ہوں۔ تم میرے بھائی کا انتظار کیوں نہیں کرتے؟ وہ مجھ سے بڑا اور زیادہ مزیدار ہے۔'

 

 

پر لالچی دیو نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا اور چھوٹا مینڈھا پل پار کر گیا اور دوسری طرف تازہ ہری گھاس کھانے لگا۔ دوسرے مینڈھے نے چھوٹے مینڈھے کو تازہ ہری گھاس کھاتے دیکھا اور اسے جلن ہونے لگی کیونکہ وہ بھی اسے کھانا چاہتا تھا۔ اس لیے درمیانی جسامت کا مینڈھا پل کے پاس گیا اور ندی پار کرنا شروع کیا۔ وہ اپنے درمیانے جسامت کے کھر کو ٹرپ، ٹریپ، ٹرپ، ٹریپ کرتا ہوا جانے لگا۔ ایک بار پھر پل کے نیچے سے دیو باہر نکلا۔

'میرے پل پر ٹرپ ٹریپ کرکے کون چل رہا ہے؟' وہ دہاڑا۔

اپنے تھرتھراتے ہوئے کھروں کے ساتھ، درمیانی جسامت کے مینڈھے نے اپنا لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا 'میں ہوں۔ میں اپنے بھائی، چھوٹے مینڈھے کا پیچھا کررہا ہوں، تاکہ میں میٹھی گھاس کھاسکوں۔'

'اوہ نہیں تم نہیں جاؤ گے! میں تمہیں ناشتے، لنچ اور چائے میں کھانے جارہا ہوں!'

'اوہ نہیں، مسٹر دیو، تم مجھے کھانا نہیں چاہو گے۔ میں اتنا بڑا نہیں ہوں کہ تمہارا پیٹ بھر سکے۔ میرے بڑے بھائی کے آنے تک انتظار کرو – وہ مجھ سے بھی زیادہ مزیدار ہے۔'

'اوہ ٹھیک ہے' دیو نے کہا اور درمیانی جسامت کا مینڈھا تیزی سے پل سے نکل گيا اور چھوٹے مینڈھے کے ساتھ ہری میٹھی گھاس کھانے لگا۔

بڑے دلیر مینڈھے کو جلن ہونے لگی تھی اور وہ پل پار کرکے اپنے بھائیوں کے ساتھ شامل ہونے کے لیے مزید انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے ہمت کرکے، اس نے پل پر اپنا کھر رکھا۔ ٹرپ، ٹریپ، ٹرپ، ٹریپ۔ اچانک ہی پل کے نیچے سے دیو باہر نکلا۔
'میرے پل پر ٹرپ ٹریپ کرکے کون چل رہا ہے؟' اس نے تیز آواز میں پوچھا۔

میں ہوں۔ بڑا مینڈھا۔ تمہارے خیال میں تم کون ہو؟
'میں دیو ہوں اور میں تمہیں ناشتے، لنچ اور چائےپر کھانے جارہا ہوں!'

'اوہ نہیں تم ایسا نہیں کرو گے'

'اوہ ہاں میں کروں گا – تم دیکھ لوگے!'

پھر دیو بڑے مینڈھے کے پاس پہنچا، لیکن اس نے اپنا سر نیچے جھکایا اور بہادری سے دیو کو ٹکر ماری، اور اسے اپنے سینگوں میں پھنسا کر نیچے ندی میں پھینک دیا۔ دیو بہتے ہوئے پانی میں غائب ہوگيا، پھر دوبارہ کبھی نظر نہیں آیا۔ اب کوئی بھی اس پل سے بغیر خطرے کے جاسکتا تھا اور تینوں بکروں کے ساتھ میٹھی ہری گھاس کا مزہ لے سکتا تھا۔

 

 

Enjoyed this story?
Find out more here